Friday 19 September 2014

بہت کچھ کروں گا۔۔۔۔ مگر کل کروں گا




By Zainab Habib

بہت کچھ کروں گا، مگر کل کروں گا
ابھی مجھ کوسو لینے دو
دس درھم دینے کا فائدہ نہیں ہے
چند لاکھ کمانے تو دو
خزانہ پھر اپنا لٹاؤں گا میں
سب بھوکوں کو کھانا کھلاؤں گا میں
بے سہارا ہیں جتنے سہارا میں دوں گا

بے گھر کو گھر بنا کر میں دوں گا
دولت غریبوں میں بانٹوں گا میں

جو مردہ ضمیر ہیں جگاؤں گا میں
عیادت مریضوں کی میں خود کروں گا

علاج کے لیے انکو پیسے میں دوں گا
یتیموں کو گھر لے کر آؤں گا میں

انہیں پیار سے پاس بٹھاؤں گا میں
بوڑھے ہیں جتنے انکو خوش کروں گا

سب غمگین دلوں کو ہنسا کر رہوں گا
جنازے کو کندھا لگاؤں گا میں
تعزیت کے لیے ضرور جاؤں گا میں
کوئی کام ہو تو میں اس کو کروں گا
ضرورت ہو جس کو مدد میں کروں گا
بہت کچھ کروں گا، مگر کل کروں گا
ابھی مجھ کو سو لینے دو
دس درھم دینے کا فائدہ نہیں ہے
چند لاکھ توکمانے تو دو
بیدار ہوجا، اے سونے والے
تجھے کیا خبر موت کب تجھ کوآلے
تیرے خواب تو ہیں بڑے شان والے
پر آج کیا کیا ہے؟ یہ تو بتا دے
کل کس نے دیکھا ہے اے میرے پیارے!
اپنے آج کو فورًا کام میں لگالے

**سنو اے ظالمو اے جابرو اے قاتلو!**



**سنو اے ظالمو اے جابرو اے قاتلو!**
سنو جنت کی ٹکٹیں بانٹنے والو
جہنم منتظر ہے
سنو نردوش لوگوں کے لہو کو چاٹنے والو
جہنم منتظر ہے
سنو اے ظالمو اے جابرو اے قاتلو
بہت ہی شوق ہے تم کو
گلے کو کاٹ دینے کا
تمہیں بارود کی بدبو سے
حد درجہ عقیدت ہے
تم اکثر خواب میں جنت کی چلتی ریل گاڑی سے
لپکنے کی بہت کوشش تو کرتے ہو
مگر وہ چھوٹ جاتی ہے
تم اپنے سامنے رکھا ہوا کھانا
من و سلوی سمجھتے ہو
خیالوں میں نہر سے دودھ پیتے ہو
مگر سن لو
تمہارا وہم ہے سارا
تمہارے واسطے دوزخ سجائی جا چکی ہے
جہنم کا داروغہ ہاتھ میں چابک لیئے
رستہ تمہارا دیکھتا ہے
سنو اے ظالمو اے جابرو اے قاتلو!
اگر تم سن سکو تو غور سے سن لو
تمہاری گردنیں بھی ایک دن کٹنے ہی والی ہیں
ذرا سوچو!
تمہاری بیویاں بیوہ بنی کیسی لگیں گی
تمہاری لاش پر ماتم کناں مائیں بھلا کیسی لگیں گی
تمہارے ننھے بچوں سے یتیمی کا سفر کیسے کٹے گا
ہمارا جو نہیں تو اپنے گھر کا ہی ذرا سوچو
ذرا سوچو
ذرا سوچو
خدا کے واسطے جنگ و جدل کا راستہ چھوڑو
گریباں ہے تمہارا تو ذرا سا جھانک کر دیکھو
خیالوں میں نہر سے دودھ پیتے ہو
صف_ماتم بھی آنگن میں ذرا اپنے بچھی دیکھو
ارے اے ظالمو اے جابرو اے قاتلو......
شاعر**احمدنعیم ارشد

Monday 8 September 2014

شہیدانِ وطن



شہیدانِ وطن کے حوصلے تھے دید کے قابل۔۔۔۔

وہاں پر شکر کرتے تھے، جہاں پہ صبر مشکل تھا۔۔۔


Thursday 17 April 2014






حضرت نوح علیہ السلام ایک مدت تک لوگوں کو اللہ کی بندگی کی دعوت دیتے رہے، مگر کم ہی لوگ تھے جو ان پر ایمان لاۓ۔ آخر اللہ کے عذاب نے ان نافرمانوں کو آ گھیرا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ کو حکم سے ایک کشتی تیار کی اور اپنے ماننے والوں سے کہا کہ اس میں سوار ہو جاؤ، اس کا ٹھہرنا اور چلنا اللہ کے ہی نام سے ہے۔ بیشک میرا رب بخشنے والا ہے۔

پانی کا طوفان آیا اور ہر چیز کو نگل گیا، مگر وہ کشتی جس کا چپو اللہ کا نام لے کر ٹھاما گیا تھا کنارے جا لگی اور جو اس میں سوار ہوۓ تھے بچ گۓ۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ سبا کے نام خط لکھا تو اس کا آغاز اللہ کے بابرکت نام سے کیا گیا۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادہے،"ہر اچھے کام کی ابتداء اللہ کے نام سے کرو۔ اس میں برکت ہو گی اور تم اللہ کی رحمتوں سے محروم نہیں ہو گے"۔

بندہ جب بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتا ہے تو وہ اعلان کرتا ہے کہ اُس کو بھروسہ صرف اللہ کی ذات پر ہے، اللہ اپنے بندے کی پکار سنتاہے اور اس کی دعائیں قبول کرتا ہے۔ اور اس کی حاجات پوری کرتاہے۔

پس بندے کو چاہیے کہ جو بھی مانگے اللہ سے مانگے اور اچھے کام کی ابتداء بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کرۓ۔ اس سے انسان اللہ کی نافرمانی سے بچے گا۔ اور ہر قسم کے وبال اور نقصان سے محفوظ رہے گا۔ اللہ پہ اس کا ہقین پختہ ہو گا۔ اور شیطان کی چالوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اسے قوت اور ہمت نصیب ہو گی۔

اللہ ہمیں اپنی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرماۓ۔ آمین